Supreme court order |
سپریم کورٹ کا
نامناسب لباس پہن
کر پیش ہونے
والے پر ڈپٹی کمشنر
پر اظہا ر
برہمی :
چیف سیکریٹری نے تمام افسران کو آئیندہ
مناسب لباس پہننے
کا حکم جاری
کر دیا۔
ان
افسران سے عوام کیا
توقع رکھیں جن کو اپنے
لباس تک کا نہیں
معلوم اور عدالت
کو یہ کام
سر انجام دینا پڑا۔
سپریم کورٹ میں ڈپٹی
کمشنر لاہور رنگ برنگا لباس پہن کر پیش ہوا اور عدالت کے
استفصار پر کہا
کہ میرا یہی لباس ہے
۔نامناسب جواب پر
عدالت نے سخت
نارا ضگی کا اظہار
کیا اور فوری طور پر
چیف سیکریٹری کو
طلب کر لیا
جس نے عدالت
سے معذرت کی اور
کہا کہ قانون
کے مطابق کوئی
خاص ڈریس کوڈ
نہ ہے۔ اس
پر عدالت نے
حکم جاری کیا کہ
کیا اس کا
یہ مطلب ہے کہ جیسا
چاہیں لباس پہنیں
،دل کرے تو بنیان
پہن کے پھریں ۔
عدالت نےنے حکم جاری کیا
کہ آئندہ تمام
لوگ مناسب لباس
پہنیں اور مناسب طریقہ
اختیار کریں۔ چیف
سیکریڑی نے عدالت کے احکامات
پر ایک حکم
نامہ جاری کیا
ہے کی ائندہ ہر
افسر مناسب لباس
میں پیش ہو
۔ اس حکم نامے
میں افسران کو جوتے
مناسب پہننے کا
حکم ،تاکید کی
گئی۔
Chief Secretary Order to all officers to wear proper dress |
میں
ایک دفعہ ایک ذاتی
لیکن قانونی معاملہ کے
سلسلے میں ایک
سیکریڑی صاحب کے پاس
گیا تو
وہاں پہلے سے
ایک صاحب موجود
تھے اور سیکریڑی
صاحب فون کسی
کو فر ما رہے تھے
کہ ان بچیوں میرے پاس
ڈسپوزل پر بھیج دیں
۔ میں ادھر
پوسٹ کرواتا ہوں وہ ادھر
کورس وغیرہ کرنا
چاہتی ہیں میرے
دوست کی بچیاں ہیں
اور خیر سے ان کے وہ
دوست صاحب بھی
میرے ساتھ ہی
دوسری کرسی پر
براجمان زیر لب مسکرا
رہے تھے ۔ اور میں
یہ سوچ رہا
تھا کہ اب
یہ صاحب عوام
کے ٹیکسوں پر یہاں
کیا صرف اپنے
دوستوں کو نوازنے کے
لیے بیٹھے ہیں۔
ہر
افسر اگرچہ قانو
ن کی نظر
میں ایک پبلک سرونٹ ہے
لیکن ہر معمولی
افسر سے لے
کر بڑے تک سب
اپنے آپ کو قانون
سے بالا سمجھتے
ہیں۔ افسران بڑی بڑی
گاڑیوں ، بنگلوں کے مزے
لیتے ہیں اور
اپنے اصل مقصد ہر
کوئی توجہ نہیں
دیتے اور جب بھی
کسی نے ان
کی توجہ
ان کی ذمہ داریوں کی طرف
دلوائی تو ان
پر یہ بات سخت
ناگوار گزرتی ہے۔ اگر ہم
غور کریں اور
تاریخ کا مطالعہ
کریں تو معلوم
ہو تاہے کہ صرف
وہی اقوام ترقی
کرتی ہیں جو
اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتی
ہیں ۔ یہ
بات تبدیلی سرکا
ر کو بھی
سمجھنی چاہئیے کہ
عوام نے بھرپور
اعتماد کے ساتھ ان کو
ووٹ دیا کہ
تبدیلی آئے گی۔
لیکن ہنوذ دہلی
دور است۔
غور
کرنے ، فکر کرنے
کی ضرورت ہے ۔
حکومت کو سوچنا
چاہیے کہ اگر
ملک کی سب
سے بڑی عدالت
کے ساتھ معمولی
افسران کا رویہ
انتہائی شرمناک ہے
تو عوام اس
کرپٹ اور بے حس
معاشرے میں ان
افسران کے سامنے کیا
اہمیت رکھتی ہے جو
ملک کی سب
سے بڑی عدالت
کو اہمیت نہیں
دیتے۔
0 Comments